خلیفہ (24-41), معاون تفویض (42-48), معاون (وزیر) تنفیذ (49-51), والی ( گورنر ) (52-60), محکمہ حرب (61-69), داخلی امن (70-72), محکمہ خارجی امور (73), محکمہ صنعت ( 74), قضاء (عدلیہ) (75-95), انتظامی مشینری (96-101), بیت المال (102), میڈیا (103-104),   مجلسِ امت (شوری اور محاسبہ) (105-111)

 

خلافت ریاست, نبوی طریقہ کار وسلم خلافت, خلافت ریاست کے دستور, دفعہ نمبر 34: خلیفہ کے تقرر کا طریقہ بیعت ہے خلیفہ کے تقرر اور اس کو بیعت دینے کے عملی اقدامات کچھ اس طرح ہوںگے:

  • ا۔ محکمۃ المظالم خلافت کے منصب کے خالی ہونے کا اعلان کرے گا۔
  • ب۔ عبوری امیر اپنی ذمہ داری سنبھالے گا اور فوراََ نامزدگیاں شروع ہونے کا اعلان کرے گا۔
  • ج۔ شروط انعقاد کو پورا کرنے والے امیدوار وں کی نامزدگیاں قبول کی جا ئیں گی اورمحکمۃ المظالم کے مطابق ان شرائط پر پور نہ ا اترنے والوں کی نامزدگی مسترد کر دی جائے گی۔
  • د۔ وہ امیدوار جن کی نامزدگی کو محکمۃ المظالم نے قبول کیا ہو مجلس امت کے مسلمان اراکین دو مرتبہ مختصر کریں گے: پہلے اختصار میںوہ ووٹ کی اکثر یت کی بنیاد پر چھ امیدواروں کو منتخب کریں گے اوردوسرے مر حلے میں ووٹ کی اکثریت کی بنیاد پر ان میں سے دو کا انتخاب کریں گے۔
  • ھ۔ ان دو امیدواروں کا اعلان کیا جا ئے گا اور مسلمانوں کو ان میں سے ایک کو منتخب کرنے کا کہا جا ئے گا ۔
  • و۔ انتخابی نتائج کا اعلان کیا جائے گا اور مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے گا کہ کس نے زیادہ ووٹ لیے۔
  • ز۔ جس شخص نے زیادہ ووٹ لئے ہو ں مسلمان کتاب وسنت پر عمل کرنے کی شرط پر اس کی خلافت کی بیعت کریں گے۔
  • ح۔ بیعت کے مکمل ہونے کے بعد لوگوں کے سامنے یہ اعلان کیا جائے گا کہ کون مسلمانوں کا خلیفہ بن گیا تا کہ تمام مسلمانوں کو خلیفہ کے تقرر کا علم ہو ، اس کے نام کے اعلان کے ساتھ اس کی صفات کا بھی اعلان کیا جائے گا جن کی بنیادپروہ انعقاد کی شرائط پر پورا اترا ۔

 

خلافت ریاست, نبوی طریقہ کار وسلم خلافت, خلافت ریاست کے دستور, دفعہ نمبر 35: امت ہی خلیفہ کا تقرر کرتی ہے ۔لیکن جس وقت شرعی طریقے سے خلیفہ کو بیعت انعقاد دے دی جائے اس کے بعد امت کو اُس خلیفہ کو معزول کرنے کا اختیار نہیں۔

خلافت ریاست, نبوی طریقہ کار وسلم خلافت, خلافت ریاست کے دستور, دفعہ نمبر 36: خلیفہ کے پاس درجہ ذیل اختیارات ہوتے ہیں :

  • ا) خلیفہ ہی ان احکامات کی تبنی کرتا ہے جو لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کے لیے ضروری ہیں اور یہ تبنی کتاب و سُنت سے صحیح اجتہا د کے ذریعے مستنبط کردہ احکامات کی ہو تی ہے تا کہ یہ احکامات قوانین بن جائیں پھر ان پر عمل کرنا فرض ہو جاتا ہے اور ان کی مخالفت جائز نہیں۔
  • ب) خلیفہ ہی ریا ست کی داخلی اور خارجی پالیسی کے بارے میں جو اب دہ ہے، وہی فوج کا قا ئد اعلیٰ ہے اور اسی کو اعلانِ جنگ،صلح،جنگ بندی اور دوسرے معا ہدے کرنے کا اختیا ر ہے۔
  • ج) خلیفہ کو ہی غیر ملکی سفیروں کو قبول کرنے ،ان کومسترد کرنے ،مسلمان سفیروں کو تعینات کرنے اور ان کو معزول کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔
  • د) وہی والیوں اور معاونین کو مقرریا معزول کر سکتا ہے یہ سارے لوگ جس طرح مجلس امت کے سامنے جوابدہ ہیںبالکل اسی طرح خلیفہ کے سامنے بھی جوابدہ ہیں ۔
  • ھ) خلیفہ ہی قاضی القضاۃ اور دوسرے قاضیوں کو مقرر اور بر طرف کر سکتا ہے اس میں صرف یہ استثنا ء ہے کہ خلیفہ صرف اس حالت میں قاضی المظالم کو بر طرف نہیں کر سکتا جب قاضی المظالم کسی معا ملے میں خلیفہ یا اس کے معاونین یا اس کے قاضی القضاہ کے خلاف کسی شکایت کا جائزہ لے رہا ہو۔ خلیفہ ہی تمام ڈائریکڑز ، فوجی کمانڈروں اور جنرلوں کو مقرر یا بر طرف کر سکتا ہے اور یہ سارے لو گ صرف خلیفہ کے سامنے جوابدہ ہیں مجلس امت کے سامنے نہیں ۔
  • و) خلیفہ ہی ان احکام شر عیہ کی تبنی کرتا ہے جن کی رو سے ریاست کا بجٹ تیا ر کیا جاتا ہے وہی بجٹ کے حصوں اور ہر شعبے کے لیے رقم مختص کرتا ہے خواہ اس کا تعلق آمدن سے ہو یا اخراجات سے۔

خلافت ریاست, نبوی طریقہ کار وسلم خلافت, خلافت ریاست کے دستور, دفعہ نمبر 37: خلیفہ تبنی میں احکا م شر عیہ کا پا بند ہے چنا نچہ اس کیلئے کسی ایسے حکم کی تبنی حر ام ہے جس کا اس نے ’ادلہ شریعہ‘ سے صحیح طریقے سے استنباط نہ کیا ہو۔ وہ اپنے تبنی کردہ احکامات اور طریقہ استنباط کا بھی پابند ہے۔ چنانچہ اس کے لیے جائز نہیںکہ وہ کسی ایسے حکم کی تبنی کرے جس کے استنباط کا طریقہ اس سے متناقض ہو جسے خلیفہ تبنی کر چکا ہے، اور نہ ہی اس کے لیے جائز ہے کہ وہ کوئی ایسا حکم دے جو اس کے تبنی کردہ احکامات سے متناقض ہو۔

خلافت ریاست, نبوی طریقہ کار وسلم خلافت, خلافت ریاست کے دستور, دفعہ نمبر 38: خلیفہ کو اپنی رائے اور اجتہا د کے مطا بق لو گو ں کے امو ار کی دیکھ بھا ل کا پو را حق حاصل ہے ۔ اس کو ان مبا حا ت میں بھی تبنی کا حق حا صل ہے جو ریا ستی امو ر کو چلا نے اور لوگو ں کی دیکھ بھا ل کیلئے ضر وری ہے ۔ تا ہم مصلحت کو دلیل بنا کر کسی حکم شر عی کی خلاف ورزی اس کے لیے بالکل جا ئز نہیں مثا ل کے طو ر پر غذائی قلت کو دلیل بنا کر وہ کسی ایک خاندان کو بھی کثرت اولا د سے منع نہیں کر سکتا، اسی طر ح مصلحت یا لو گو ں کے معا ملا ت کی دیکھ بھا ل کو بہا نہ بناکر کسی کا فر یا عو رت کو والی مقر ر نہیں کر سکتا یا اس کے علاوہ بھی کو ئی بھی خلاف شر ع کا م نہیں کر سکتا اور اس کیلئے کسی حا ل میں حر ام کو حلال کر نا یا حلا ل کو حر ا م کر نا جا ئز نہیں۔

خلافت ریاست, نبوی طریقہ کار وسلم خلافت, خلافت ریاست کے دستور, دفعہ نمبر 39: خلیفہ کے لیے کوئی محدود مدت نہیں ،جب تک خلیفہ شریعت کی حفاظت اور اس کے احکامات کو نافذ کرتا ہے ، ریا ستی امور کی انجام دہی پر قادر ہے تب تک خلیفہ ہے اور اس وقت تک خلیفہ رہے گا جب تک اس کی حالت میں ایسی کوئی تبدیلی رونما ہو جائے جو اس کو خلافت کے منصب سے خارج کر دے ۔ جیسے ہی اس کی حالت بدل گئی تو فوراً اس کو بر طرف کرنا فرض ہو جاتا ہے۔

 

خلافت ریاست, نبوی طریقہ کار وسلم خلافت, خلافت ریاست کے دستور, دفعہ نمبر 40: وہ امور جن سے خلیفہ کی حالت بدل جاتی ہے اوروہ خلیفہ کے منصب سے خارج ہو جاتا ہے وہ تین ہیں۔

  • ا) انعقاد خلافت کی شرائط میں سے کسی شرط میں خلل (نقص) آجائے ،جیسا کہ وہ مر تد ہو جائے، کھلم کھلا فسق پر اتر آئے ، پاگل ہو جائے یا اسی قسم کی کوئی دوسری صورت پیش آئے۔کیونکہ یہ شرائط انعقاد کی شرائط بھی ہیں اور شرائطِ دوام (تسلسل کی شرائط) بھی ہیں۔
  • ب) کسی بھی سبب سے وہ خلافت کی ذمہ داری سے عاجز ہو جائے۔
  • ج) وہ اس قدر مغلوب ہو جائے یا دبائو میں آجائے کہ اپنی رائے سے شریعت کے موافق مسلمانوں کے مفادات کے لیے اقدامات نہ کر سکے، چنانچہ جب کوئی اس پر اس حد تک غالب آجائے کہ وہ احکام شرعیہ کے مطابق رعایا کے مفادات کی نگرانی بذاتِ خود اپنے اختیار و ارادے اور اپنی رائے کے مطابق کرنے سے عاجز ہو جائے تو اسے حکماً فرائض خلافت کی ادائیگی سے عاجز سمجھا جائے گا۔ ایسی صورت میں وہ اس منصب کا اہل نہیں رہے گا ۔یہ دو صورتوں میں ممکن ہے:

پہلی حالت : اس کے حاشیہ برداروں میں سے کوئی فردیا افراد اس پر اس طرح مسلط ہو جائیںکے اس پر اپنی رائے ٹھونس دیںاور وہ امور کی انجام دہی میں ان کے سامنے مجبور ہو جائے ۔ اگر ان کے تسلط سے چھٹکارا اس کے لئے ممکن ہو تو اس تو تنبیہ کی جائے گی اور ایک معینہ مدت تک اس کو مہلت دی جائے گی پھر بھی اگر وہ ان کے غلبہ سے باہر نہیںنکلتا تو اس کو برطرف کیا جائے گا ۔ اگر چھٹکارے کی کوئی امید نہ ہو تو فورا اس کو برطرف کردیا جائے گا۔

دوسری حالت: وہ کسی ایسے زبردست دشمن کے ہاتھوں گرفتارہو جائے۔یہ گرفتاری بالفعل ہو یا وہ دشمن خلیفہ پر تسلط حاصل کر لے ۔اس حال میںبھی دیکھا جائے گا کہ اگر اسے چھٹکارا پانے کی امید ہو تو اس وقت تک اس کو مہلت دی جائے گی ورنہ اسے معزول کر دیا جائے گا۔ اور اگر شروع ہی سے امید نہ ہو تو اسی وقت اس کو برطرف کر دیا جائے گا۔

خلافت ریاست, نبوی طریقہ کار وسلم خلافت, خلافت ریاست کے دستور, دفعہ نمبر 41: صرف محکمتہ المظالم ہی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا خلیفہ کی حالت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ خلافت سے خارج ہے یا نہیں۔ صرف محکمتہ المظالم کے پاس خلیفہ کو تنبیہ کرنے یا اس کو برطرف کرنے کا اختیار ہے۔

خلافت ریاست, نبوی طریقہ کار وسلم خلافت, خلافت ریاست کے دستور, دفعہ نمبر 42: خلیفہ اپنے لیے ایک یا ایک سے زیادہ معاون تفویض مقرر کرے گا جو حکمرانی کی ذمہ داری اٹھائیں گے ۔ خلیفہ اس کو اپنی رائے اور اجتہادکے مطابق امور کی تدبیر کا اختیار دے گا ۔

خلافت ریاست, نبوی طریقہ کار وسلم خلافت, خلافت ریاست کے دستور, دفعہ نمبر 43: معاون کے لیے بھی وہی شرائط ہیں جو خلیفہ کے لیے ہیں یعنی وہ مرد ہو ، آ زاد ہو ، مسلمان ہو ، با لغ ہو ، عاقل ہو، عادل ہو ، قادر ہو اور اپنی ذمہ داریوں کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔